حرفِ آغاز

اسلامی دہشت گردی

 

مولانا حبیب الرحمن اعظمی

 

امریکہ اور اس کے خوشامدی ممالک اور مغرب گزیدہ میڈیا ”اسلامی دہشت گردی“ کی اصطلاح بڑے شدومد سے استعمال کررہے ہیں،یہ طاقتیں اپنے اس بے بنیاد اور غلط پروپیگنڈے کے ذریعہ عالمی برادری کو یہ باور کرانا چاہتی ہیں کہ عصرِ حاضر میں امنِ عالم کے لیے سب سے بڑا خطرہ اسلام اور اس کے پیرو مسلمان ہیں، افسوس و حیرت تو اس پر ہے کہ اَہنسا کا پجاری ہندوستان اپنے حکمرانوں کی غلط سوچ کی بنا پر آج امریکہ و اسرائیل کی اسلام مخالف سرگرمیوں میں ان کا ہم نوا اور شریک کار بن گیا ہے؛ جبکہ امریکہ اور اسرائیل کے جارحانہ رویے عالمی برادری پر اپنی بالادستی جتانے کے لیے اپنے سے کمزور ملکوں کے خلاف بغیر کسی معقول وجہ کے سفّاکانہ اقدامات کے پیش نظر کوئی منصف مزاج اور حقیقت پسند، انھیں دنیا کا سب سے بڑا دہشت گرد یقین کیے بغیر نہیں رہ سکتا، رہا آزاد ہندوستان کی حکومتوں اور اس کے اہلِ مناصب اور کارپردازوں کا معاملہ تو ملک کی اقلیتوں اور کمزور طبقوں کے خلاف ان کے ظلم و جبر اور دہشت گردیوں کی داستان بڑی طویل ہے، جہاں حکومتوں کے زیر سایہ تیس ہزار سے زائد مسلم کُش فسادات ہوچکے ہیں، جن میں نہ جانے کتنے زندہ انسانوں کو نذرِ آتش کردیاگیا، نہ جانے کتنے معصوم بچوں اور کمزور عورتوں کو تہہِ تیغ کردیا گیا اور دہشت گردی کا ایسا کھلا مظاہرہ کیاگیا کہ دنیا چیخ پڑی؛ مگر ان ”اسلامی دہشت گردی“ کا رونا رونے والوں کی آنکھ تک نہ پسیجی، دہشت گردوں کا یہ ٹولہ اپنے جرائم سے دنیا کی نگاہیں پھیرنے کی غرض سے ”اسلامی دہشت گردی“ کا واویلا مچارہا ہے اوراپنے سرکاری ذرائع کے ذریعہ ملک میں جب بھی کوئی ایسا حادثہ پیش آتا ہے، اسے مذہبِ اسلام اور قومِ مسلم سے جوڑ دیا جاتا ہے۔ ورنہ حقیقت یہ ہے کہ اسلام کا دہشت گردی سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے؛ بلکہ اگر یہ دعویٰ کیا جائے تو بیجا نہ ہوگا کہ دنیائے مذاہب میں دہشت گردی کا سب سے بڑا مخالف اگر کوئی مذہب ہے تو وہ اسلام ہی ہے؛ کیوں کہ ادیان وملل کی طویل فہرست میں اسلام ہی وہ واحد مذہب ہے جس کی ہر چیز میں دہشت و وحشت کی بجائے شفقت و رحمت نمایاں ہے، اس کا خدا ”ربُّ العالمین“ تمام عالم کا پالنے والا ہے ”رحمٰن و رحیم“ ہے، اس کے خدا کی تمام صفتوں میں رحمت و رافت غالب ہے، اس کی آسمانی کتاب قرآنِ حکیم میں تین سو سے زائد آیتوں میں صفتِ رحمت کا ذکر ہے حتیٰ کہ اس کتابِ مقدس کی ابتداء ہی اسمِ ذات اللہ کے بعد رحمن و رحیم سے ہوتی ہے۔ جس میں صاف لفظوں میں یہ اعلان کیاگیا ہے کہ ”کَتَبَ رَبُّکُمْ عَلٰی نَفْسِہ الرَّحْمَةَ“ تمہارے رب اور پالنہار نے اپنے اوپر رحمت ثبت کرلی ہے۔

          جس کی صلاے عام ہے کہ خداے رؤف و رحیم کے قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں اوراس کے احکام کے توڑنے والوں کو بھی اس کی رحمت سے ناامید نہیں ہونا چاہیے: ”قُلْ یٰعِبَادِیَ الذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰی اَنْفُسِکم لاَ تَقْنَطُوا مِن رَحْمَةِ اللہ اِنَّ اللہَ یَغْفِر الذُنوبَ جمیعًا اِنَّ اللہَ ھو الغَفُورُ الرَّحِیْمُ“ اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اعلان کردیجیے کہ میرے جن بندوں نے نافرمانی کرکے اپنے اوپر زیادتی کی ہے، اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہوں! بیشک اللہ تعالیٰ تمام گناہوں کو معاف کرتا ہے، بلاشبہ وہی بخشنے والا، رحمت والا ہے۔

          ایک حدیثِ پاک میں اللہ تعالیٰ کی رحمتِ بے پایاں کی تعبیر ان الفاظ میں کی گئی ہے: ”رَحْمَتِيْ سَبَقَتْ عَلٰی غَضَبِيْ“ (میری رحمت میرے غضب پر غالب ہے) پہاڑ کے برابر گناہ بھی رحمتِ خدا وندی کے آگے کوئی حقیقت نہیں رکھتے۔

          مذہبِ اسلام کا رسول اور ہادیِ وپیغمبر بھی ”رحمةٌ للعالمین“ اور سراسر رحمت و شفقت ہے، اللہ پاک کا ارشاد ہے : ”وَمَا اَرْسَلْنَاکَ اِلاَّ رَحْمَةً للعالمین“ ہم نے آپ کو تمام عالم کے لیے رحمت ہی بناکر بھیجا ہے۔ ایک حدیث میں آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ”اَنَا نَبِيُّ الرَّحْمَةِ، أنَا رَسُوْلُ الرَّحْمَةِ“ میں نبیِ رحمت اور رسولِ رحمت ہوں، ایک اور حدیث میں فرمایا گیا: ”اَنا رَحْمَةٌ مُھْدَاةٌ“: میری ذات سراپا رحمت ہے جو خلقِ خدا کو منجانب اللہ بطورِ عطیہ مرحمت کی گئی ہے۔

          مذہبِ اسلام دشمنوں کے ساتھ بھی بے انصافی کو پسند نہیں کرتا اور جادئہ انصاف پر قائم رہنے کی تاکید کرتا ہے: ”یَا اَیُّھَا الذِیْنَ آمَنُوا کُونُوا قوامِیْنَ لِلہِ شُھَدَاء بِالْقِسْطِ وَلاَ یَجْرِمَنَّکُم شَنَآنُ قَومٍ عَلٰی اَلاَّ تَعْدِلُوا اِعْدِلُوا ھُو اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی وَاتَّقُوا اللہَ اِنَّ اللہَ خَبِیْرٌ بِمَا تَعْمَلُوْنَ“  ترجمہ: اے ایمان والو! آمادہ رہو اللہ کے واسطے گواہی دینے کو انصاف کی، اور کسی قوم کی دشمنی کے باعث انصاف کو ہرگز نہ چھوڑو، انصاف کرو، یہی بات زیادہ نزدیک ہے تقویٰ سے اور اللہ سے ڈرتے رہو اللہ کو خوب خبر ہے جو تم کرتے ہو۔

          مذہبِ اسلام کی امن پسندی اور عفو و درگزر کا یہ عالم ہے کہ وہ ذاتی معاملات میں انسانی نفسیات کا لحاظ کرکے اگرچہ مظلوم کو اس کا حق دیتا ہے کہ وہ چاہے تو برابر کا بدلہ لے لے؛ لیکن اسی کے ساتھ عفو و درگزرکو بدلہ لینے سے بہتر قرار دیتا ہے اور اپنے ماننے والوں کو اس پر اجر و ثواب کی بشارت دیتا ہے۔

          ارشادِ خدا وندی ہے : ”وَجَزاءُ سَیْئةٍ سَیْئةٌ مِثْلُھا فَمَنْ عَفَا وَاَصْلَحَ فَاَجْرُہ عَلٰی اللہِ اِنّہ لاَیُحِبُ الظَالِمِیْن“  ترجمہ: اور برائی اور ظلم و زیادتی کا بدلہ ویسے ہی برائی ہے؛ لیکن جو شخص معاف کردے اور صلح و صفائی کرلے تو اس کا ثواب اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے اور وہ ظلم کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔

          ایک دوسری آیت میں فرمایاگیا: ”وَاِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوا بِمِثْلِ مَا عُوقِبْتُم بِہ وَلَئِنْ صَبَرْتُمْ فَھُو خیرٌ لِلصابِرین“  ترجمہ: اوراگر تم پر سختی کی گئی تو تم بھی ویسی ہی سختی کرلو جیسی تمہارے ساتھ کی گئی، اگر تم صبر سے کام لو تو وہ صبر کونے والوں کے لیے بہتر ہے۔

          نبیِ رحمت  صلی اللہ علیہ وسلم کا پاک ارشاد ہے: ”لاَ تَکُوْنُوا إمَّعَةً، تَقُولُوْنَ : انْ اَحْسَنَ النَّاسُ اَحْسَنَّا، وَاِنْ ظَلَمُوْا ظَلَمْنَا، وَلٰکِنْ وَطِّنُوا أنْفُسَکُمْ ، انْ أحْسَنَ النَّاسُ اَنْ تُحْسِنُوا وَانْ أسَاوٴُا فَلَا تَظْلِمُوا“  ترجمہ:تم دوسروں کی دیکھا دیکھی کرنے والے نہ بنو کہ یوں کہنے لگو: اگر لوگ ہمارے ساتھ بھلائی کریں تو ہم بھی ان کے ساتھ بھلائی کریں اوراگر لوگ ہمارے ساتھ ظلم کا برتاؤ کریں تو ہم بھی ان پر ظلم کریں؛ بلکہ تم اپنے آپ کو اس بات پر قائم رکھو کہ اگر لوگ بھلائی کریں تو تم بھی بھلائی کرو اور اگر لوگ بُرا سلوک کریں تب بھی تم ظلم نہ کرو!

          خود نبیِ کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کا طرزِ حیات یہ تھا کہ مَا انْتَقَمَ رَسُولُ اللہِ صلی اللہ علیہ وسلم لِنَفْسِہ فِيْ شَيْءٍ قَطُّ اِلاَّ أنْ تَنْتَھِکَ حَرْمةُ اللہِ فَیَنْتَقِمُ بِھَا لِلہِ“  ترجمہ: آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ذاتی معاملہ میں کبھی کسی سے انتقام نہیں لیا؛ البتہ جب اللہ کی حرام کی ہوئی چیز کا ارتکاب کیا جاتا تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کا حکم ٹوٹنے کی وجہ سے سزا دیتے تھے۔

          چنانچہ سیر کی کتابوں میں مذکور ہے کہ ایک دن آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں ایک اجنبی مہمان آیا، آپ نے اسے کھانا کھلایا اور سونے کا انتظام بھی فرمادیا، وہ شخص بدنیتی و دشمنی کے ساتھ آپ کے یہاں آیا تھا، چنانچہ صبح سویرے بستر پر غلاظت کرکے قبل اس کے کہ لوگ بیدار ہوں اٹھ کر چلاگیا صبح کو رسولِ اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم اس کی خبرگیری کو آئے اور بستر پر غلاظت دیکھی تو اپنے دستِ مبارک سے اسے دھویا پھر دیکھا کہ وہ شخص جاتے ہوئے اپنی تلوار وہیں بھول گیا ہے، کچھ دور جاکر اسے اپنی تلوار یاد آئی توآہستہ آہستہ واپس آیا کہ ابھی لوگ سورہے ہوں گے، میں تلوار لے کر واپس چلا جاؤں گا؛ مگر اس نے دیکھا کہ رسولِ پاک  صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مبارک ہاتھوں سے بستر کو صاف کررہے ہیں، آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اسے دیکھا تو بجائے اس کے کہ اس کی اس ناپسندیدہ حرکت پر اسے ڈانٹتے، دھمکاتے، نہایت نرمی سے فرمایا تم اپنی تلوار بھول گئے تھے، یہ رکھی ہے لے لو آپ کے اس سلوکِ کریمانہ پر وہ بیساختہ پکار اٹھا: اَشْھَدُ أنْ لَا الٰہَ الَّا اللہُ وَأشْھَدُ أنَّ مُحَمَّدً رَّسُولُ اللہِ“! یہ ہے اسلام کی تعلیم اور ہادیِ اسلام کا طرزِ عمل۔

          اسلام ظلم و تشدد کو ایک لمحہ کے لیے بھی روا نہیں رکھتا، اس کے نزدیک ظلم و تشدد سے انسانی فطرت مسخ ہوجاتی ہے، معاشرہ تباہ ہوجاتا ہے اور دنیا ویران ہوجاتی ہے؛ اس لیے قرآنِ حکیم میں عدل وانصاف کی توصیف وتعریف سے کہیں زیادہ ظلم کی مذمت بیان کی گئی ہے۔ قرآنِ کریم کے نزدیک ظالم ہدایتِ الٰہی سے محروم ہوجاتا ہے: ”اِنَّا اَعْتَدْنَا لِلظَّالِمِیْنَ عَذَابًا اَلِیْمًا“ ترجمہ: ہم نے ظلم کرنے والوں کے لیے دردناک عذاب تیار کررکھا ہے۔

          رحمتِ عالم  صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ”اِتَّقُوا الظُّلْمَ فَانَّ الظُّلْمَ ظُلُمَاتُ یَوْمِ الْقِیَامَةِ“ ترجمہ: ظلم سے بچو کیوں کہ ظلم قیامت کے دن تہہ بہ تہہ اندھیرا ہوجائے گا، ایک حدیث میں ارشاد ہے: ”اِتَّقُوا مِنْ دَعْوةِ الْمَظْلُومِ فَانَّھَا لَیْسَ بَیْنَھَا وَبَیْنَ اللہِ حِجَابٌ“  ترجمہ: مظلوم کی بددعا سے بچو؛ کیونکہ مظلوم کی بددعا اوراللہ کے درمیان کوئی حجاب نہیں۔

بترس از آہِ مظلوماں کہ ہنگامِ دعا کردن

اجابت از درِ حق بہرِ استقبال می آید

          اسلام کے نزدیک ساری مخلوق اللہ کی ایک کنبہ ہے اورسب کے ساتھ بھلائی کا حکم دیتا ہے: اَلْخَلْقُ کُلُّھُمْ عِیَالُ اللہِ فَأحَبُّ الْخَلْقِ عِنْدَ اللہِ مَنْ اَحْسَنَ الٰی عِیَالِہ ترجمہ: ساری مخلوق اللہ کا کنبہ ہے اور اللہ کے نزدیک سب سے پیاری وہ مخلوق ہے، جو اس کے کنبہ کے ساتھ حسنِ سلوک کرے۔ اسلام سارے انسانوں کو انسانیت کے رشتہ سے بھائی مانتا ہے اور ان کو بھائیوں کی طرح باہمی اتحاد و اتفاق کے ساتھ رہنے کی تلقین کرتا ہے: ”لَا تَقَاطَعُوا وَلاَ تَدَابَرُوْا وَلاَ تَبَاغَضُوْا وَلاَ تَحَاسَدُوْا وَکُوْنُوا عِبَادَ اللہِ اخْوَانًا“  ترجمہ: ایک دوسرے سے تعلقات نہ توڑو، ایک دوسرے سے منھ نہ پھیرو، ایک دوسرے سے کینہ نہ رکھو، ایک دوسرے سے حسد نہ کرو اور خدا کے بندو بھائی بھائی بن جاؤ!

          انسان تو انسان ہیں، اسلام جانوروں کو بھی ایذا پہنچانے اور تکلیف دینے کی بہ تاکید ممانعت کرتا ہے۔ آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم بیان فرماتے ہیں کہ ایک عورت کو محض اس بناپر عذاب ہوا کہ اس نے ایک بلی کو باندھ کر اس کا کھانا پینا بند کردیا تھا، جس سے وہ مرگئی، جانوروں پر شفقت کی یہ انتہا ہے کہ غصہ اور جھنجھلاہٹ میں بھی انھیں کوسنے اور ان پر لعنت بھیجنے تک کی ممانعت ہے۔ اسلام کی ہدایت ہے کہ جو جانور جس کام کے لیے پیدا کیاگیا ہے، اس سے وہی کام لینا چاہیے۔

غرضیکہ اسلام کی تعلیمات واحکامات سے روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ یہ ایک دینِ رحمت ہے، اس میں ظلم و جبر، دہشت گردی اور جارحیت کی کوئی گنجائش نہیں ہے؛ اس لیے جو لوگ اسلام کے دامنِ رحمت ورافت پردہشت گردی اور جبر وتشدد کا دھبہ لگانے کی لاحاصل کوشش میں لگے ہیں، دراصل ان کا دل ودماغ اور ان کی فکر ونظر بجائے خود دہشت گردی کے جنون میں مبتلا ہے، فی الواقع یہی لوگ دہشت گردی کے جراثیم سے دنیا کو آلود کررہے ہیں، دہشت گردی انھیں کے کوکھ سے جنم لیتی ہے، اور وہی اس کی نشوونما کرکے اسے پروان چڑھاتے ہیں، جس دن اس حقیقت کو تسلیم کرلیا جائے گا، یقین جانیے اسی دن سے دنیا دہشت گردی کی لعنت سے پاک ہوجائے گی ع

نہ سمجھوگے تو مٹ جاؤگے اے ہندوستاں والو!

***

-------------------------------------------

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 12 ‏، جلد: 97 ‏، صفر 1435 ہجری مطابق دسمبر 2013ء